میں آپ کا رسالہ دو سال سے پڑھ رہی ہوں اور آپ کو ایک سچا واقعہ لکھ رہی ہوں براہ مہربانی میرا واقعہ ضرور شائع کیجئے گا۔ یہ واقعہ ہمارے ساتھ ہی پیش آیا۔ ہمارا مکان تین منزلوں پر مشتمل ہے‘ سب سے نیچے ہم لوگ اپنی امی ابو کے ساتھ رہتے ہیں۔ درمیان والی منزل پر میری چچی اور چچا رہتے ہیں (میری چچی میری سگی خالہ بھی ہیں) اور تیسری منزل ہم لوگوں کی آدھی آدھی ہے‘ یعنی دو کمرے تھے ایک کمرے میں میرے چچا جان کا سامان تھا اور دوسرے کمرے میں ہم دو بہنوں کا جہیز تھا۔ چچا اور چچی کی ہمارے دوسرے کمرے پر بھی قبضہ کی نیت تھی‘ انہوں نے اپنے پورشن پر مضبوط آہنی دروازہ لگوا دیا اور ہمیں اوپر نہ آنے دیا‘ میرے اور میری بہن کے جہیز اور کمرے پر قبضہ کرلیا‘ ہماری چیزیں تقریباً پانچ لاکھ سے اوپر کی تھیں ہم دونوں بہنیں قبضہ کی وجہ سے بغیر جہیز کے رخصت ہوئیں‘ بہت کوششیں کیں کم از کم کمرہ نہ سہی ہمیں ہمارے جہیز کا سامان ہی مل جائے لیکن نہیں ملا‘ الٹا یہ کہا گیا کہ اوپر تو کچھ ہے ہی نہیں بلکہ چند قریبی رشتہ داروں کو ساتھ ملا کر ہمارا سامان غائب کروا دیا گیا‘ خیر ہم روتی دھوتی رخصت ہوئیں اور اپنی والدہ کے کہنے پر صبر کرگئے‘ مگر میرے والد کے آنسو چھپائے نہیں چھپتے تھے کہ میں نے دن رات ایک کرکے تھوڑا تھوڑا کرکے اپنی بیٹیوں کا جہیز بنایا اور وہ بھی وہ ساتھ نہ لے کر گئیں۔ چونکہ ہم بہنوں کا کوئی بھائی نہیں تھا‘ میرے چچا اورچچی جان نے اس پر بھی بس نہ کیا پانی کی ٹینکی اوپر والی چھت پر تھی اس کو بھی والو لگوا کر ہمارا پانی بھی بند کردیا گیا ہم لوگ دو سال تک پانی ہمسائیوں کے ہاں سے بھرتے رہے مگر ان کو ذرا بھی شرم نہ آتی اور الٹا ہم پر ظلم کرتے‘ کبھی غلاظت اوپر سے پھینکتے‘ کبھی گندا پانی‘ کبھی تعویذ جلاتے‘ خون گراتے‘ حتیٰ کہ ان سے جو کچھ ہوسکتا تھا انہوں نے کیا یہ کسی طرح مکان چھوڑ کر چلے جائیں‘ جھوٹے مقدمات بھی کیے‘ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے پانی کے ساتھ ساتھ گیس بھی بند کردی اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ ہم نہیں دیں گے‘ ایک سال ہوگیا میرے والدین بغیر گیس کے گزارہ کررہے ہیں جب بھی چچی کے پاس لوگوں کو ہم بھیجتے ہیں وہ کہتیں کہ وہ والو بند کردیتی ہیں
ہمارا ان کے ساتھ گزارا نہیں‘ حالانکہ ہم بل بھی آدھا آدھا جمع کرواتے تھے‘ اسی طرح وہ ظلم کرتے رہے ہم لوگوں سے مار پیٹ تک کی لیکن ہم نے صبر کیا اپنی والدہ اور والد کی نصیحتوں پر عمل کیا کہ بیٹا صبر کرو‘ اللہ دیکھ رہا ہے وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے اس کے گھر میں دیر ہے مگر اندھیر ہرگزنہیں ہے‘ دیکھنا تم وہ ایسا انصاف کرے گا تم اش اش کر اٹھو گی اور ہمارے صبر کا نتیجہ ہمارے مطابق تھوڑی دیر سے مگر نکلا ضرور اور نتیجہ یہ نکلا کہ میری چچی جو گیس اورپانی کے والو بند کرتی تھیں ان کے دل کے دو والو بند ہوگئے اور میرے چچا جان کو فالج کا اٹیک ہوگیا۔ اب دونوں علاج کروا کروا کر تھک گئے ہیں مگر انہوں ایک فیصد بھی افاقہ نہیں ہورہا مزید ان کی اولاد غلط افعال میں پڑگئی ہیں‘ مزید اب وہ اپنی اولادوں کے افعال‘ غلط حرکات‘ فیشن‘ بیٹیوں کی لڑکوں کے ساتھ دوستیاں اور اپنے آپ کو دیکھ دیکھ کر کڑھتے ہیں جن پر وہ ناز کرتے تھے‘ مگر اب وہ کچھ نہیں کرسکتے‘ بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (س۔ س‘ راولپنڈی)
بے شک بددعائیں تعاقب کرتی ہیں!
ہمارے گھر سے ایک گلی چھوڑ کر آج سے تیس سال پہلے ایک آدمی نے شادی کی‘ شادی کی پہلی رات ہی اس نے یا اس کی بیوی نے علیحدگی اختیار کرلی (بعد کے نتیجے سے لگتا ہے آدمی کی زیادتی تھی) بعد میں آدمی نے دوسری شادی کرلی لیکن خاتون نے دوسری شادی نہ کی اور اس پہلی رات کے نتیجہ میں خاتون کے ہاں ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی جس کو میں بچپن میں دیکھتا تھا لیکن بات کبھی نہ ہوئی‘ وہ بچی جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اس کا دماغی توازن خراب ہوتا گیا اور وہ اکثر گلی سے گزرتے ہوئے اپنے والد جو کہ دوسری شادی کرچکا تھا اور اس میں تین یا چار بچے بھی ہیں اس کو جھولی اٹھا اٹھاکر بددعائیں دیتی تھی کہ ’’شاء اللہ کوھڑا ہوکے مَریں‘‘ یعنی جب تجھے موت آئے تو تیری شکل دنیا میں ہی بدصورت ہوجائے‘‘ اس کی وجہ سےاس آدمی کے نئے سسرال والوں نے اس بچی کی دو تین مرتبہ پٹائی بھی کی لیکن وہ پھر بھی باز نہ آتی تھی۔
ابھی مجھے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو امی جان سے پرانی باتیں ہورہی تھیں تو تب اس کا ذکر بھی ہوا تو امی نے بتایا کہ اس کا ابو گزشتہ آٹھ سال سے فالج میں مبتلا ہے اور آپ کو تو معلوم ہے کہ فالج کے مریض کی شکل بھی ٹیڑھی ہوجاتی ہے اور گندگی بھی ساتھ ہوتی ہے‘ اب وہی لڑکی اور کچھ سمجھ میں آئے یا نہ آئے مطمئن ہے اور ہمیشہ اس گھر کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے کہ ’’اب میں راضی ہوں‘‘۔میری والدہ کی اس ماں سے بات ہوئی تو اس بچی کی ماں نے بتایا کہ میں نے اس کو کچھ نہیں بتایا نہ معلوم اسے کیا ہوتا کہ خود ہی گھر سے باہر جاتی اور جاتی بھی اس وقت جب اس کا والد گلی سے گزرتا اور اس کو خوب بددعائیں دے کر گھر آجاتی۔ مجھے نہیں معلوم اس کو کیسے پتہ چلا کہ وہ اس کا والد ہے اور اس نے میرے ساتھ اور میری ماں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔جب سے اس کے والد کی شکل ٹیڑھی ہوئی ہے اور وہ چلنے پھرنے بولنے سے قاصر ہے اس وقت سے بہت مطمئن ہے‘ گھر میں پرسکون رہتی ہے‘ اب باہر بہت کم نکلتی ہے اور جب کبھی نکلے تو اس گھر کو دیکھ کر مسکرا کر واپس آجاتی ہے۔ (محمد عثمان غفاری‘ لاہور)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں